سحر کے ساتھ یہ سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا یقینا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے یا ایک احساس، محسوس تو ایسے ہی ہوتا ہے کہ ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا اور پھر نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا۔ انسان دنیا میں انفرادیت یا پہچان کے لئے کیا کیا جتن کرتا ہے وہ ایسی کوشش میں اپنا آپ بھلا دیتا ہے کہ وہ اپنے آنے کا مقصد تلاش کرے یا اپنے آپ کو پہچانے پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ پس تحریر یہ کہ ابھی میں نے 92نیوز میں ایک خبر پڑھی کہ ایک برطانوی نے اپنے چہرے پر سترہ سوراخ کر کے نیا ریکارڈ قائم کیا اور گینیز بک آف ریکارڈ میں اپنا نام لکھوایا۔ مزے کی بات یہ کہ اس شخص نے اپنا ہی ریکارڈ بہتر کیا اس کی یہ بات توجہ طلب ہے کہ اسے کوئی پروا نہیں کہ دنیا کیا کہتی ہے ویسے ہی ذھن میں ایک شعر آ گیا: ہمیں کیا ہے جو تو نے تنگ آ کر چاک کر ڈالا تیرا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریبان تھا خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے سوراخ کر کے اپنے چہرے کا حلیہ ہی بگاڑ لیا ہے اس خبر کے مقابل میں مجھے اسلامیہ کالج کا ایک شخص محمد حسین یاد آیا وہ درجہ چہارم کا ملازم تھا اور اس نے غالباً اڑھائی سو مرتبہ خون دیا تھا اور وہ اکثر اپنے سرٹیفکیٹ دکھاتا کہ اس کی کیسے توصیف ہوئی اور اس کے اس عمل کو سراہا گیا تب بھی گینیز بک آف ریکارڈ کا تذکرہ ہوتا۔لیکن ساری باتیں ایک طرف اس کے اس عمل سے کم از کم خلق خدا کا فائدہ ضرور تھا کہنا میں چاہتا ہوں کہ آپ کا عمل چاہے ہٹ کر ہو مگر اس کا کوئی مقصد تو ہو اب چہرے پر 17پنکچر لگا لینا کوئی عقل مندی نہیں۔ اس بات سے مجھے ایک اور خیال آیا کہ شناخت کے لئے بھی چہرہ سب سے اہم ہے کہ باقاعدہ چہرہ شناسی ایک عمل ہے اس پر ایک تاک ہوتی ہے جسے رکھنے کے لئے لوگ کیا کیا جتن کرتے ہیں ناک کے اوپر دو آنکھیں بھی تو ہیں۔پھر ان دو جھیل سی آنکھوں کے اوپر دو ابرو کمانوں جیسے۔پھر یہی نہیں خندہ پیشانی کہ جس پر قسمت کا ستارا ہوتا ہے نازک ہونٹ جس پر میر نے کہا تھا نازکی ان کے لب کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے کہنے کا مقصد یہ کہ قدرت نے چہرے کو سجایا کیسے ہے انسان کی ساری خوبصورتی چہرے ہی سے عیاں ہو جاتی ہے: اس کا چہرا جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے مجھے ً یاد آیا کہ ایک مرتبہ بادشاہ وقت نے اپنی بیگم سے کہا کہ اگر تم چاند جیسی خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاق بعد میں جب بیگم پردے کے پیچھے چل گئی کہ طلاق ہو چکی تو بادشاہ کو خیال آیا کہ غلط بات منہ سے نکل گئی۔اب بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا کہ حل نکالا جائے سب نے کہا اب تو ممکن نہیں کہ بیگم سے رجوع ہو سکے اس وقت ایک نسبتاً کم عمر نوجوان عالم وہاں تھے انہوں نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی بڑے بڑے علماء یہ سن کر ششدر رہ گئے دلیل پوچھی تو نوجوان عالم نے کہا کہ سورہ وتین میں اللہ قسمیں اٹھا کر کہہ رہا ہے کہ اس نے انسان کو خوبصورت ترین پیدا فرمایا احسن تقویم کی بات کی تو چاند کیا شے ہے ویسے بھی چاند کی تو روشنی بھی مستعار ہے ہاں اسے گہن ضرور لگتا ہے جس طرح اس برطانوی جوان نے خود کو گہنا لیا۔ بات ہوتے ہوتے کہاں نکل آئی بعض لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں کہ خاندان کا معاشرے کا یا قوم کا چہرا ہوتے ہیں۔اگر آپ انہیں ماتھے کا جھومر کہیں گے پھر بھی تو بات چہرے سے متعلق ہے۔ انور مسعود صاحب نے تو یہ بھی کہا تھا کہ چہرے کیا پورے محبوب کا حسن سمٹ کر تل میں آ گیا تھا اور پھیلا تو زلف بن گیا میں تو بہرحال چہرے کی بات کر رہا ہوں چہرہ نہ ہو تو میک اپ نہیں ہو سکتا چاہے پورا چہرہ میک اپ کے لیپ کے نیچے چلا جائے مگر خدوخال تو چہرے ہی کے ہوتے ہیں ایک سہرا لکھا جاتا ہے اور شاید ایک چہرہ جو کہ میں لکھتا چلا جا رہا ہوں۔ چہرے پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا اصلی چہرہ کیا ہے سیاستدانوں میں تو یہ اکثر ہے کہ اقتدار سے پہلے کوئی چہرہ ہوتا ہے اور اقتدار ملنے کے بعد دوسرا چہرہ۔ پہلے تو وعدے دعوے اور عوام کا درد اور پھر جب ووٹ کی ضرورت نہیں رہتی تو کمال کی طوطا چشمی اور چشم پوشی اور تو اور چہرے پر ندامت بھی نہیں ہوتی۔اور قاسمی صاحب نے کہا تھا کہ دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں۔ اور تو اور چہرہ مر کر بھی نمایاں ہوتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ چہرے پر وہی رونق اور تمازت تھی آنے والوں کو چہرے ہی کی زیارت کروائی جاتی ہے شاید عبرت کے لئے بھی کہ اب وہ ہونٹ بے حرکت پڑے ہیں آنکھیں خالی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب زندگی نہیں رہتی تو پھر جسم تو بے چہرہ ہو جاتا ہے میں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا۔بہرحال اللہ نے جو چہرے جیسی شے بخشی ہے اور اسے چمکتی آنکھوں اور ستواں ناک کے ساتھ سجایا ہے اس کی قدر ہم پر واجب ہے چہ جائیکہ کوئی اس میں سوراخ کرنے بیٹھ جائے کیا کرنا اس گینیز بک آف ریکارڈ کا وہ کون سا کوئی بخشش کا سرٹیفکیٹ ہے۔ فطرت کی عطا کردہ خوبصورتی کو بگاڑنا کوئی دانشمندانہ فعل تو نہیں۔ چہرہ تو بچایا جاتا ہے سجایا جاتا ہے نہ کہ بگاڑا جاتا ہے اور سوراخوں سے لدا جاتا ہے۔یہ تو خالق کے خیال کا پرتو ہے: مری شکل اتری تھی خاک پر مری خاک رکھی تھی چاک پر میں خیال دست ہنر میں مجھے اس نے خود سے ملا دیا ٭٭٭٭٭